تہران،5جنوری(آئی این ایس انڈیا)ایران میں بدعنوانی کے تناظر میں صدر حسن روحانی اور عدلیہ کے سربراہ صادق آملی لاریجانی کے درمیان زبانی جنگ کا سلسلہ جاری ہے جو 1979 میں انقلاب ایران کے بعد غالبا اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔ دونوں شخصیات نے ایک دوسرے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اداروں کے کھاتوں کو عوام کے سامنے ظاہر کریں۔ ایرانی عوام ملک کے دو اعلی ترین حکام کے درمیان شدید ترین الزامات کے تبادلے پر پریشانی کا شکار ہیں۔حسن روحانی نے ایک ٹوئیٹ میں اعلان کیا کہ وہ ایوان صدارت کے کھاتوں کو ظاہر کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم اس شرط کے ساتھ کہ مرشد علی خامنہ ای کے نزدیک شمار کیے جانے والے لاریجانی بھی عدلیہ سے متعلق تمام تر کھاتوں کو منظر عام پر لے کر آئیں۔
ایرانی عدلیہ کے سربراہ صادق لاریجانی نے دو روز قبل ایک بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ صدر روحانی نے 2013میں اپنی انتخابی مہم کے دوران بابک زنجانی سے مالی سپورٹ حاصل کی تھی۔ زنجانی کو اربوں ڈالر کی بدعنوانی کے الزام میں ایرانی عدلیہ نے موت کی سزا سنائی تھی۔لاریجانی نے دھمکی دی کہ وہ ان تمام لوگوں کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیں گے جنہوں نے زنجانی سے سپورٹ حاصل کی۔ مبصرین کے مطابق زنجانی کی یہ دھمکی ایران کے دو اعلی ترین حکام کے درمیان بحران میں شدت سے خبردار کر رہی ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے رکن محمود صادقی نے سب سے پہلے اپنے ملک میں عدلیہ حکام کی بدعنوانی کے حوالے سے سرکاری طور پر آواز بلند کی تھی۔ یہ پیش رفت "آمد نیوز" ویب سائٹ کی جانب سے جاری رپورٹ کے بعد سامنے آئی جس میں عدلیہ کے سربراہ صادق لاریجانی کے کھاتوں میں کروڑوں ڈالر کے مساوی حکومتی فنڈز جمع کرائے جانے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں لاریجانی نے غضب ناک ہو کر رکن پارلیمنٹ محمود صادقی کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے۔
ایرانی میڈیا روحانی اور لاریجانی کے درمیان بھڑکی ہوئی اس زبانی جنگ کے حوالے سے دو حصوں میں منقسم ہو گیا ہے۔ ایرانی روزنامے”شہروند“نے اپنی اشاعت میں کہا ہے کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بڑوں کے درمیان کھیل کا آغازہے۔